میں نے کیا سمجھا

کالم:- میں نے کیا سمجھا
از قلم:- انجنیئر محمد رضا سرگانہ

دو چیزوں پہ قلم کشائی کر کے طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک بلدیاتی اداروں کے حوالے سے، دوسرا زراعت کے حوالے سے۔ اوّل الذکر پہ بات کرنا دراصل ہماری ذمہ داری ہے، کہ ہماری پہچان ہی بلدیاتی اداروں کی وجہ سے ہے۔
آخر الذکر پہ بات کرنا ہمارا فرض ہے کہ ہمارا تعلق زرعی گھرانے سے ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے سے دونوں شعبے مسائل، مشکلات، آلام، گھٹاؤں، پرچھائیوں کی زد میں ہیں، مگر مسیحا کوئی نہیں۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ زبانی جمع خرچ سے دونوں شعبوں کی حالت مزید زبوں حالی کا شکار ہے۔
اسے اب ہماری قسمت کہیے کہ ان شعبوں کے حوالے سے لب کشائی کریں گے بھی تو نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا۔
مگر چلیں، تسکین دل کا سامان بہم پہنچانا بھی تو ضروری ہے۔ سو جو ہم نے دیکھا، جو ہم نے سمجھا، جو ہم نے محسوس کیا، وہ بیاں کرتے رہیں گے۔
آج مدعائے بیاں بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی ہے۔ کہ آئین پاکستان کی شق 140 اے میں صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں لائیں گے، جن کو مالی، انتظامی، و سیاسی اختیارات سونپنا ہونگے۔
آج مگر صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبے بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی میں پہ شاداں ہیں۔
دو صوبوں میں ایک جماعت، جبکہ دیگر دو صوبوں میں دو مختلف جماعتوں کی حکومت ہے۔ مگر بلدیاتی اداروں کی موجودگی کے حوالے سے پس و پیش ایک سی ہے۔
یوں تو چند سال جو بلدیاتی ادارے وجود پزیر رہے ہیں، ان میں موجود ممبران کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے، تو ایک واضح اکثریت جو کہ نچلی سطح پہ کسی نہ کسی صورت میں بلدیاتی اداروں کا حصہ رہے، بعدازاں وہ ترقی کرتے کرتے، ممبران مقننہ بن گئے۔ مگر جونہی وہ مقننہ کا حصہ ہوئے، ان پہ بلدیاتی اداروں کا ایسا فوبیا سوار ہوا، کہ وہ بلدیاتی اداروں کے وجود کو اپنے لیئے خطرہ تصور کرنے لگے۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں چھ دفعہ بلدیاتی اداروں کو قبل از تکمیل مدت کام کرنے سے روک کر گھر بھیجا گیا۔
ہر دفعہ ایسا اقدام جمہوری قوتوں کے دور میں میں ہوتا رہا۔ جسے لکھتے ہوئے مؤرخ کے ہر دفعہ ہاتھ کانپتے رہیں گے۔
دراصل یہ ایک عدم برداشت کی کیفیت ہے۔ جس کی چھایا ہمارے معاشرے پہ بڑی دبیز ہے۔ اس میں معاشرے کا ہر فرد ہی کسی نہ کسی صورت میں ملوث ہے۔
معاشرتی رویوں میں عدم برداشت ہی ایسی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے کہ پھر کسی بھی فرد کو، دوسرے کی موجودگی میں خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔
حالانکہ کسی دوسرے کی موجودگی بجائے خطرے کے، سہارا بھی ثابت ہو سکتی ہے، اگر سب اپنے رویوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کرنا شروع کر دیں۔
بلدیاتی ادارے چونکہ آیئنی ضرورت ہیں، اس لیے ان کے اختیارات غیر منتخب لوگوں کو حوالے کر کے، من مرضی کے اقدامات کروائے جاتے ہیں۔
یہ قسمت کی خرابی ہی ہے کہ ہر دفعہ ڈکٹیٹر ہی منتخب بلدیاتی نمائندوں کو مقامی حکومتوں کے اختیارات سونپتے آئے ہیں۔ جبکہ جمہوری لوگ، اپنا وقت بلدیاتی نمائندوں سے نظریں چرانے میں گذار دیتے ہیں۔
ترقی یافتہ معاشروں میں چونکہ حکومتوں کے جمہوری رویے اچھے ہوتے ہیں، اسی لیے وہ اختیارات کو نچلی ترین سطح پہ منتقل کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
عرف عام میں کہا جا سکتا ہے، کہ وہاں جمہوریت مسلسل پنپ رہی ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے معاشروں میں جمہوریت کے نام پہ اختیارات کا مرکز فقط چند لوگ، اپنے اقتدار کو دوام بخش رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں بلدیاتی اداروں کی نمائندہ تنظیموں کا ہونا، انتہائی ضروری ہے۔ کہ جو ایسے اداروں کی بقاء کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کر سکے۔
گر جمہوری قدریں مضبوط ہوں، تو حکومتیں ایسی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ تاکہ انہیں مختلف الخیال اور مختلف الآرا لوگوں کے نمائندہ چند لوگوں سے انکے مسائل جاننے کا موقع مل سکے۔ نیز، ان کے تحفظات کو حل کرنا، ممکن ہو سکے۔
مگر بدقسمتی سے یہاں چونکہ بلدیاتی اداروں کو ہی ناپسند کیا جاتا ہے۔ چہ جائیگہ انکی نمائندہ تنظیم کو کون برداشت کرے گا۔
برسبیل تذکرہ کہتا چلوں کہ یورپی ممالک خصوصا جرمنی میں ہم نے دیکھا کہ بلدیاتی اداروں کی نمائندہ تنظیموں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ حکومتیں، دانستا ایسے اداروں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں کہ انہیں مخصوص لوگوں سے ہی اختلاف کی صورت میں مذاکرات کرنا پڑیں، اور جہاں ضرورت ہو، وہاں اپنی بات کو منوانا آسان ہو۔ بلکہ ایک مخصوص حد مقرر کر کے، ان کو حکومت فنڈز بھی فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ اپنے معاملات کو بہتر طور پہ نبٹا سکیں۔
دفاتر میں بیٹھنے والوں کی نظام سے جڑی سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ حکومت کو ان ہی لوگوں نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں تبدیلی کا کہہ کے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کا نفاذ کروایا، ابھی اس پہ نئے الیکشن بھی نہ ہونے پائے تھے، کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2021 کو لاگو کر دیا گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے نمائندہ تنظیم کے ذریعے سے بلدیاتی نمائندوں کی تجاویز کو مرتب کیا جائے۔ نیز تمام پارٹیز بلدیاتی اداروں کی بہتری کیلئے، کسی ایک نظام پہ متفق ہوں۔ تاکہ آئین پاکستان نے جو ذمہ داری حکومت کو سونپی ہے، حکومت اس کو صحیح معنوں میں سرانجام دے سکے، اور آئندہ بلدیاتی ادارے رولنگ ڈائس نہ بنے رہیں۔
ہم نے تو یہی سمجھا ہے۔

بلدیاتی اداروں کی زبوں حالی پہ ہمارے دو شعر ہیں

خوب بھٹکا ہوں رات بھر تنہا
میں جو کرتا رہا سفر تنہا
پھر حوادث کی زد میں آیا ہے
پوری دنیا میں میرا گھر تنہا



Author: LCAP
Local Councils Association of the Punjab is an organisation working in Lahore, Punjab. While supporting various local government aspects under the project SALG funded by European Union and CLGF.

Leave a Reply